257

حکومت کا الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

وزیراعظم پاکستان ان کے ،ترجمانوںو معاونین اور وفاقی وزراء کی طرف سے پے درپے بیانات اور اظہار خیال اور ناراضگی کے بعد چند روز قبل تین سنیئر وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس کر کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ڈسکہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی،دو افراد کے قتل،صوبائی حکومت کی انتظامیہ کی نا اہلی اوربیس پولنگ ایجنٹس کا معہ ووٹوں کے تھیلوں کے دوسرے دن تک غائب ہو جانے پرالیکشن کو کالعدم قرار دینے اور سینٹ کے الیکشن میں مبینہ خرید وفروخت کو الیکشن کمیشن کی نااہلی قراردے کر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا۔مگر حکومت وقت آدھا سچ بول رہی ہے ۔پورا سچ بولے تو ہر شخص ان کی تایئد کر ے گا۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ایک الیکشن کمیشن یا دیگر اداروں کی کارکردگی۔دوسرے کرسیء اقتدار تک پہنچنے کے لیے ووٹوں کی کیا ،انسانوں وانسانیت کی خرید و فروخت اوردیگر جائز و ناجائز طریقوں کا استعمال۔۔۔
۔۔۔پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں ہر حکومت نے (کسی نے کم کسی نے زیادہ)اپنی بھر پور کوشش کی کہ اپنے عرصہء اقتدار کو طول دینے کے لیے اداروں کو اپنی مرضی سے چلائیں۔اس میں صرف ایک عسکری ادارہ اس لیے محفوظ رہا اور ہے کہ اس ادارے کا اپنا نظم و نسق،ضابطے قواعدو قوانین اور سب سے بڑھ کر ڈسپلن ہے۔وگرنہ حکومتیں دیگر تمام اداروں میں مداخلت کرتی رہی۔جس میں عدلیہ ،نیب،اور الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی ہے۔عدلیہ کا بھی ایک قضیہ رہااور تنازعات جنم لیتے رہے۔نیب کے ادارے کے متعلق تو سپریم کورٹ آف پاکستان کے کئی چشم کشاریمارکس موجود ہیں۔اور حقیقت بھی یہ ہے کہ نیب کی کارکردگی حکومتی ایماء پر صرف حکومتی لوگوں کو چھوٹ اور اپوزیشن کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے۔ایسا پہلی حکومتوں میں بھی ہوتا رہا مگر اب تو حد سے زیادہ ہے۔
۔۔۔جہاں تک الیکشن کمیشن کی بات ہے یہ ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہا۔صرف ٧٠ئ کے الیکشن جوبعقول ہمارے لیڈران کے ایک ڈکٹیٹر نے کرائے تھے۔کو چھوڑ کر ہر الیکشن پر انگلیاں اٹھتی رہی۔ابھی ایک عشرے میں جو دو الیکشن ٢٠١٣ئ اور ٢٠١٨ئ میں ہوئے ہر دو پر اعتراضات ہوئے۔٢٠١٣ئ کے الیکشن پر پی ٹی آئی نے ١٢٦ دن کا دھرنا دیا اور لاک ڈائون کی کوشش کی۔اسی دھینگا مشتی میں پانچ سال پورے ہوئے ایک وزیراعظم تاحیات نااہل ہوئے۔پھرایک نئی جماعت متعارف ہوئی جس کے منشور ، وعدوں ودعوں کے مطابق عوام کو امید کی ایک کرن نظر آئی تھی کہ شاہد کچھ بہتری ہو مگر یہ پاکستانی عوام کی کسی کوتائی کا نتیجہ تھا کہ عوام کو ایک امتحان میں ڈال دیا گیا ۔بہتری ہونا تو درکنار حالات پہلے سے بھی بد تر ہی نہیں بلکہ بد ترین ہو گے ۔معشیت تباہ و برباد ہے،مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔بیرونی اور اندرونی قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں بجلی اور تیل کی قیمتیں رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ جس کی وجہ سے مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ترقیاتی کام ٹھپ ہیں۔ٹیکسوں پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں ۔نا معلوم یہ رقوم کہاں جا رہی ہیں۔ حکومت کہتی ہے قرضے اتار رہے ہیں اگر قرضے اتر رہے ہیں تو پھر پچیس ہزار ارب سے سینتیس ہزار ارب کیسے ہو گے۔کوئی شہری پوچھے تو ایک ہی جواب ہے پہلے کھا گئے یہ نہیں بتاتے کہ پونے تین سالوں میں تم نے کیا کیا۔؟ان کمزوریوں،کوتائیوں،نالائقیوںاور بیڈ گورنس کی وجہ سے ناکام ہوکر اداروں کو معتوب ٹھہرانا کہاں کی دانشمندی ہے۔۔۔
۔۔۔پاکستان کے الیکشن جیسے بھی ہوتے ہیں یہ سب جماعتوں اور لیڈروں کو بخوبی معلوم ہے۔ ن لیگ نے اپنے وقت میں چھانگا مانگا کی سیاست کی ۔ ن لیگ نے٢٠١٣ئ کے الیکشن میں پرویز مشرف کے ساتھیوں اور دودھ پینے والے مجنوں کو ساتھ ملایا ۔جو کہ ٢٠١٨ئ کے الیکشن میں بلوچستان سے پوری جماعت غیرت جاگ کر الگ ہو گئی۔ اور عمر ایوب جیسے لوگ جو پی پی پی اور ن لیگ کا حصہ رہے ۔اب یہاں آ کر ان کوطعنے دے رہے ہیں۔۔۔پی پی پی ذوالفقار علی بھٹوشہید تک تو ایسی قباحتوں سے پاک تھی مگر بعد میں اور خصوصاًآصف علی زرداری کی قیادت میں اس خرید وفروخت کے کاروبار کاآغاز ہوا۔اور٢٠١٨ئ میں سینٹ الیکشن میں آصف علی زرداری نے اپنے چار ممبران کے ہوتے ہوئے سینٹ کے دو ممبران بنوائے اور یہ بکنے والے بیس لوگ پی ٹی آئی کے تھے۔چوہدری سرور چند ممبران کے ہوتے ہوئے کیسے ممبر سینٹ بنے۔؟الیکشن کمیشن پر آج اعتراض کرنے والے عمران خان یہ نہیں جانتے ۔کہ ٢٠١٨ئ کے الیکشن کیسے ہوئے تھے۔؟اس وقت آر ٹی ایس کا فیل ہوجانا اور اس کا آج تک پتہ نا چل سکنا،دور دراز کے الیکشن رزلٹ بروقت پہنچنااور شہری حلقوں کے دنوں تک لیٹ ہونا۔فارم ٤٥ کا مہیا نا کرنا ۔پولنگ اسٹیشنز پر پولنگ ایجنٹس کو باہر نکال کر گنتی کرنا ۔اس وقت کے الیکشن کمیشن پر اعتراض کیوں نہیںکیا؟پھر سینٹ کے ٢٠١٨ئ کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اپنے بکنے والے بیس آدمیوں کو نکالا۔اور اس دفعہ پھر سولہ ممبران بک گئے۔آپ تو کہتے تھے کہ بایئس سالہ جد وجہد سے یہ پاک باز اور دیانت دارٹیم تیا رکی ہے۔تو کیاہر دفعہ آپ کے درجنوں کے حساب سے تھوک میں بکنے والوں کی تربیت پر ناز کیا جائے۔؟پھر آصف علی زرداری نے ووٹ خرید کر سنجرانی کو جتوایا۔اور آپ نے اور زرداری نے مل کر سنجرانی کو سینٹ چیئر مین اور پی پی پی کے مانڈویوالا کو ڈپٹی چیئر مین بنوایا۔اس وقت الیکشن کمیشن اچھا اور صاف و شفاف الیکشن کرا رہا تھا۔اور آصف علی زرداری بڑے دیانتدار اور پاک صاف تھے ۔پھر صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی۔تو اپوزیشن کے ٦٤ ممبران میں سے سولہ ممبران نے صادق سنجرانی کو ووٹ دیا ۔ اور تحریک ناکام ہوئی ۔کیا وہ صحیح عمل تھا۔؟
۔۔۔اب ان سینٹ کے الیکشن میں سابقہ تمام حالات جانتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو شک ہی نہیں یقین تھا کہ پی ٹی آئی کے ممبران کو زنجیروں میں جھکڑیں تب بھی انہوں نے بکنا ہے ۔تو اس خوف سے انہوں نے سینٹ الیکشن شو آف ہینڈ سے کرانے کا پہلے واویلا کیا۔پھرسپریم کورٹ چلے گئے۔صبر نا آیا تو ایک آرڈیننس لایا گیا۔یہ سب چیزیں حسب منشا ء نا ہوئی تو الیکشن کمیشن کو موردالزام ٹھہرایاگیا ۔یہ سو فیصد حقیقت ہے اور ہر خاص و عام جانتا ہے کہ ان سینٹ الیکشنز میں عام پیسہ چلا۔پیسہ لگانے والوں میں پی پی پی اور پی ٹی آئی تھی جب کہ پیسہ کھانے والوں میں کچھ ن لیگ بھی شامل تھی۔البتہ بکنے والوں میں سب ہی شامل تھے۔الیکشن سے پہلے عمران خان ہر جلسے ،میٹنگ،پریس کانفرنس میں کہتے تھے کہ بلوچستان میںسیٹ پچاس سے ستر کروڑ میں بکتی ہے۔ان کی پارٹی کے لیاقت جتوئی نے کہا کہ سندھ میں ٣٥ کروڑ میں سیٹ بکی ہے۔اور حقیقت یہ تھی کہ آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی کے ووٹ خرید کر گیلانی کو منتخب کرایا ۔اورعمران خان نے انہیں ضمیر فروش کہا مگر ان ہی ضمیر فروشوں سے تیسرے دن اعتماد کا ووٹ بھی لیا۔عبدالقادر کو پہلے ٹکٹ دیا جماعتی لوگوں کے اصرار پر ٹکٹ واپس لیا ۔پھر اپنے ممبران کو پابند کیا کہ اسی عبدالقادر کو ووٹ دو ۔اس کو جتوایا اور اپنی جماعت پی ٹی آئی میں شامل کیا۔یہ کون سی سیاست ،کون سا اصول، قاعدہ و قانون اور اخلاقی جواز ہے کہ عمران خان آپ خود اپنے ممبران کے بکنے کی گوائی دے رہے ہوںاور حقیقت میں آپ کی پارٹی کے سولہ ممبران بکے بھی ہوں اور وزیرداخلہ تصدیق کرے کہ وزیراعظم کو سب کے نام معلوم ہیں ۔تو آپ خود ان کو سامنے کیوں نہیں لاتے اور الیکشن کمیشن کو موردالزام ٹھہرارہے ہیں۔پہلے آپ ان اپنے جماعتی ممبران سے تو حساب لیں۔ مگر نہیں۔ آپ ان سے قطاً حساب نہیں لیں گے کہ اقتدار میں رہنے کے لیے اصول اور ہوتے ہیں اور باہر رہ کر اصول و اخلاق اور ہوتے ہیں۔اسی طرح ن لیگ کے جن لوگوں نے دغا کیا اور اپنے ضمیر بیچے ۔ن لیگ کی قیادت کو چاہییء کہ ان ضمیر فروشوں کو پارٹی سے نکالیں۔ سیاسی جماعتیں اداروں کے ذمے کیوں لگاتی ہیں ۔یہ خود کیوں نہیں دیکھتی کہ ان کے ممبران ٦٤ سے ٥٣ کیسے ہو جاتے ہیں۔یا پھر ١٦٠ سے ١٦٩ کیسے بن جاتے ہیں۔یا پھر ٥٣ سے ٤٢ کیسے ہوتے ہیں یہ چیزیں تو پارٹیوں کے دیکھنے کی ہیں ۔الیکشن کمیشن کاکام ہے کہ نگرانی کرے ۔بفرض محال الیکشن کمیشن سب کی جیبیں تلاش کرے مگر جب آپ کا اٹارنی جزل کہتا ہے کہ بریف کیس لے کر لوگ گھوم رہے ہیں تو ایجنسیوں کے ذریعے ان کو پکڑتے کیوں نہیں۔؟کہ کئی کوئی اپنا بھی نا آجائے۔اگر یہاں بھی بس نہیں ہوتی تو جب ایک سرمایہ دار جو اربوں خرچ کر کے ممبر بن کر کسی پارٹی کو جوائن کرتا ہے تو کیا وہ جائز ہے ۔وہاں آپ جب ان لوگوں کو پٹے ڈال رہے ہوں تو الیکشن کمیشن کیسے روکے۔؟۔۔یہ کرپشن اور دھاندلی سیاسی جماعتوں نے روکنی ہے۔الیکشن کمیشن اپنا کام کرے گا۔سیاسی جماعتیں اپنا کام کریں۔۔۔۔لیکن لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے مستعفی ہونے کے حکومتی مطالبے کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔وہ یہ کہ واوڈا کا کیس الیکشن کمیشن کے پاس ہے ۔ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ واوڈا کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے۔اور الیکشن کمیشن اسے دیکھے اگر الیکشن کمیشن نے دیکھا تو ١١جون ٢٠١٨ئ کو واوڈا امریکن شہری تھے۔اور ان کا دیا گیا بیان حلفی جھوٹا تھا۔ جس پر وہ نااہل ہو سکتے ہیں۔ اور اگر وہ نااہل ہو گے تو ان پر شق ٦٢،٦٣ کا اطلاق ہوگا ۔ اور وہ سینٹ کی سیٹ سے بھی جائیں گے ۔اور وہ دن عمران خان کے لیے قیامت کا دن ہو گا جو وہ دیکھنے نہیں چاہیتے۔۔۔اور دوسرا ڈسکہ کے الیکشن میں صوبائی حکومت کی نااہلی اور لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ داری بزدار حکومت پر تھی۔اور باقی بھی توجہ طلب معاملات ہیں جو حکومت کے ذمے ہیں۔۔۔اور سب سے بڑھ کر فارن فنڈنگ کیس ہے جس کے لیے الیکشن کمیشن کو دبائو میں لانا ہے۔اور یہ ترتیب اور ترکیب اسی سلسلے کی کڑی ہے وگرنہ الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی بات ہو تو حکومت ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر ریفرینس دائر کر دے۔۔۔یہ صرف ایک چال ہے۔اور شور و غوغا و سینٹ الیکشن کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ہے۔۔لیکن عوام الناس کی رائے اور خوایئش ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک پاکستان اور بایئس کروڑ عوام کی خاطر غیرجانبدارانہ اور قانونی و آہینی طریقہ اختیا کرے۔اس میں ہر گز ہر گز نا دیکھا جائے کہ کون سی جماعت ،شخصیت ،دھڑا ،حکومت یا اپوزیشن ہے ۔قانون وآیئن کے مطابق فیصلے کرے جو یقیناً ملکی خدمت اور بہتری کا ایک ذریعہ اور قوم و ملک پر احسان ہو گا۔اللہ پاک سب اداروں،قومی راہنمائوں اور سب شہریوں کو اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میںمدد و امداد کرے۔آمین۔ثم آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں