774

کشمیری عوام پی ٹی آئی کو اقتدار میں لا کر پاکستان جیسا ابتر حال پسند کریں گئے۔؟

کوئی بھی ذی ہوش شخص جان بوجھ کر خود کشی نہیں کرے گا۔ الا یہ کہ حالات و واقعات سے اس قدر تنگ ہو کہ اس کا جینا محال ہو۔ورنہ ایک عام سا شہری بھی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے آپ کو کچھ بہتر حالات سے نکال کر تنگ و تاریک گلیوں اور کھا ئیوں میں ہر گز ہر گز نہیں ڈالے گا۔ اس وقت بعنیہ یہ حالات پاکستان میں ہیں ۔ آزاد کشمیر کے تمام تر اور ہر قسم کے رابطے پاکستان سے تھے اور رہیں گے۔ کرسیء اقتدار کی خاطر سابقہ چند بزرگ سیاستدانوں کو چھوڑ کر آزاد کشمیر میں بھی اقتدار کے پجاری پاکستانی جماعتوں کا دم چھلابن کر آلہ کار بنے رہے اور اب بھی ہیں۔اور ہر ایک اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے اب بھی پاکستانی جماعتوں کی مد دو تعاون سے چاہے اس کے لیے اخلاق،اصول اور کسی بھی قسم کی قربانی دینی پڑے ۔ توسب کچھ لٹا کر مظفر آباد کی کرسی کا حصول یقینی بنانے میں اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔آخر کیوں۔؟اس کا جواب بے معنی اور بودھی سی توجیحات کے علاوہ کچھ بھی نہیںدے سکتے۔اور نا ان کے پاس کوئی جواب ہے۔
۔۔۔آزاد کشمیر جو آزادی کا بیس کیمپ تھا ۔اسے روزگار کا ذریعہ بنادیا گیا۔پنتالیس لاکھ کی آبادی میں چار درجن وزیر،مشیر ،معاونین بنا کر اپنی روزی روٹی کا بندوبست کر نے کے لیے ریاست میں ہی چند ادارے بناکر جن کی ذرا بھر افادیت نہیں ۔صرف روزگار کا ایک بہانہ ہے۔جیسے کشمیر لبریشن سیل کی کئی سالوں کی کارکردگی دیکھیں اور اس ادارے پر اٹھنے والے اخراجات کسی خیراتی ادارے کو دینے سے کم ازکم ثواب تو مل جاتا۔بیشتر ایسے ادارے گنوائے جاسکتے ہیں ۔کہ ان کا کام بالکل صفر ہے ۔مگر نام نہاد لیڈر شپ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انہیں قاہم رکھے ہوئے ہے ۔کہ الیکشن میں ان جماعتوں کو ان کے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں مخلص اور عوامی مفاد میں ہیںتو ہر سیاسی جماعت نے ہمیشہ بلدیاتی انتخابات کرا نے کا وعدہ کیا ۔جو ملکی ترقی کے لیے سب سے اعلیٰ اور بامقصد ادارہ اور عوامی کام اور بنیادی ضروریات کے لیے از بس ضروری ہے ۔مگر ایسے میں ان جماعتوں کے کارکن حکومت میں ایڈجسٹ نا ہوسکنے کی وجہ سے ہر جماعت اپنے مخصوص لوگوں کو نواز نے کے لیے باوجود وعدوں کے بلدیاتی انتخابات کرانے میں جان بوجھ کر غفلت کرتی رہی۔ اور ہر آنیوالی برسرے اقتدار جماعت اپنے ووٹرز اور جماعتی لوگوں کو حکومتی وساہل میں حصہ دے کر اور باقی اپوزیشن کو اچھوت سمجھ انہیں اپنے حقوق سے محروم کر کے بھی یہ دم بھرتی رہی کہ ہم نے ریاست میں تعمیر و ترقی کا جال بچھا دیا ہے۔جس سے حقیقت کا تعلق نہیں رہا۔اور نا اب ہے۔اور برسوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔۔ اور عوام بے بسی کی صورت بنے حالات کے جبر سے تنگ ہونے کے باوجود انہی جماعتوں اور لیڈروں کو گلے لگانے پر مجبور تھے۔مجبور ہیں ۔اور شاہد آہندہ بھی بہتری کی امید نہیں۔
۔۔۔ان تمام تر حالات کو دیکھ کرآزاد کشمیر کے ان آمدہ الیکشن میں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی طرح پاکستان کی برسرے اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف کو بھی آزاد کشمیر میں حکومت کرنے کا خیال پیدا ہی نہیں ہوا ۔بلکہ شدت سے ”خواہ کچھ بھی کرنا پڑے ”آزاد کشمیر کو فتح کرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔ اور گذشتہ روز آزاد کشمیر کے الیکشن میں پنتالیس سیٹوں پر تین سو امیدواروں نے حصہ لینے کے لیے درخواستیں دیں ہیں۔اور ابھی الیکشن میں پی ٹی آئی جماعت کو ووٹ پڑیں یا نا پڑیں۔واسکٹیں اور اچکنیں سلوا کر مرضی سے وزیراعظم ،وزیر ،مشیر اور معاونین خصوصی بن کر بیٹھ چکے ہیں۔ اور ہو گا بھی ایسے ہی۔ کہ ہم ضمیروں کے سوداگر ہیں۔ اپنے ذاتی وقتی مفاد کے لیے اپنی انا،حمیت،غیرت ،عزت حتیٰ کہ سب کچھ قربان کرنے کو ”سیاست” کا نام دے کر وفاداریاں تبدیل کرنا اب ایک فیشن بن چکا ہے۔
۔۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان میں پی ٹی آئی کی پونے تین سالہ حکومتی کارکردگی کو دیکھ کر بھی آزاد لشمیر کے عوام پی ٹی آئی کے امیدواروں کو کامیاب کریں گے۔؟ حالانکہ دیکھا جائے تو پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں موجودہ حکومت ناکام ترین حکومت ہے۔حالانکہ موجودہ حکومت کو ہر ادارے اور سمت سے سپورٹ ملی۔ اور مل رہی ہے۔موجودہ حکومت کے دعوے اور کہنے کے مطابق یہ اپنی بایئس سالہ سیاسی جد وجہد ،انتھک محنت،ملکی امور چلانے کی صلاحیت،بہترین ہنر مند ٹیم کے ساتھ میدان عمل میں اترے ہیں۔مگر ہوا کیا ۔؟ کہ عمران خان کے پاس سوائے چند اپنے ناتجربہ کار دوستوں اور ساتھیوں کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی اور فیلڈ میںملکی معاملات چلانے کے لیے ٹیم موجود نا تھی ۔اور نا اب پونے تین سالوں میں بھی یہ ٹیم کچھ سیکھ سکی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا۔کہ معشیت تباہ حال ہے۔سابقہ حکومتوں سے دگنی مہنگائی ہے۔ترجمانوں سے ایک دن میں کئی کئی پریس کانفرنسیں کراکر سابقہ حکومتوں کو گالم گلوچ اور چور لٹیرے ڈاکو کہہ کہہ کروقت پاس کیا جارہا ہے۔جبکہ ایک نعرہ کہ ہم احتساب پریقین رکھتے ہیں۔صرف اپنی ساکھ بچانے کے لیے گردان ہے۔وگرنہ جتنے سکینڈلز اس حکومت میں ہوئے ۔یہ کئی عشروں میں بھی نہیں ہوئے۔ہر روز رات کو ٹی وی چینلز پر حکومتی ترجمان ایک ہی بات کہتے ہیں۔کہ ہمارے اقتدار میں آنے کے وقت ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔قرضوں کا بوجھ تھا۔وغیرہ وغیرہ ۔مگر یہ نہیں بتاتے۔کہ وہ اپیلیں،درخواستیں،منتیں ،ترلے اور سڑکوں پر عوام کا احتجاج کہ آپ آ کر حکومت سمبھالیں۔ایسا ہر گز نہیں تھا۔آپ کیسے آئے۔یہ عالم جانتا ہے۔۔۔پھراس حکومت کے آنے کے بعد ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈلز،جن میں چینی،آٹا،دوائیاں،پیٹرول،گیس شامل ہیں ۔اور وہ نقصانات اور نقصان کرنے والے اسی طرح موجود ہیں۔اور عوام کو خوشکن خبر سنائی جاتی ہے کہ ہم نے سکینڈلز کی چھان بین کرائی ہے۔جس کا نتیجہ صفر ہے۔۔۔جس حکومت سے ایک چینی بحران حل نہیں ہوتا اس سے نادان عوام یہ امید لگائے بیٹھے ہیں۔کہ ملکی معشیت سنواریںگے۔اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔۔۔مگر بچارے عوام کریں بھی کیا۔؟کوئی چارہ نہیں ۔بھگتنا ہو گا۔
۔۔۔پاکستان میں یہ بربادی کر کے پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر میں بھی حکومت بنانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔اور ان کے نماہندے پر اعتماد ہیں۔کہ عوام انہیں اپنے ووٹوں سے کامیاب کریں گے۔اللہ اکبر۔۔۔اللہ آزاد کشمیر کے عوام کو ایسے کسی عذاب سے بچائے۔
۔۔۔پاکستان کی ہر حکومت کا رویہ شفیقانہ نہیں ۔بلکہ حاکمانہ رہا ہے۔حاکم کی مرضی ہے کہ اپنے محکوم کو کس انداز سے کچھ عنایت کرے۔جس کی مثال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میںکہوٹہ سے ٹائیں ڈھلکوٹ روڈ جو چار اضلاع کو آپس میں ملاتی ہے۔کے کام کا آغاز ہوا۔مگر کام نا ہوا۔پھر پاکستان میںپی پی پی کی حکومت آئی ۔تو کام بند ہوگیا۔۔۔پھر ن لیگ کی حکومت آئی ۔فندز ریلیز ہوئے ۔تو دوبارہ کام شروع ہوا ۔مگر کسی نے دلچسپی نا لی اور کام ادھورا رہا۔پھر آزاد کشمیر میں ن لیگ کی حکومت آئی ۔وزیراعظم آزاد کشمیر دلچسپی لیتے ۔تو شہباز شریف سے یہ کام کرا لیتے۔وہ اب کچھ بھی کہیں ۔انہوں نے بھی دلچسپی نہیں لی۔اس روڈ پر روزانہ ہزاروں گاڑیاں چلتی ہیں۔جو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔گاڑیوں کی شکست و ریخت الگ ہوتی ہے۔مگر ذرا بھر کسی کو پرواہ نہیں۔اسی طرح سوہان سے آزادپتن آٹھ کلو میٹر روڈ جو بارشوں میں بند اور مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔اس پر کسی کی توجہ نہیں جاتی۔یہ روڈ بھی پلندری،تراڑکھل۔ہجیرہ،راولاکوٹ،باغ،حویلی سب ڈسٹرکٹس کو آپس میں ملاتی ہے۔مگر اس پر بھی کام رینگ رہا ہے شاہد آنیوالی آدھی صدی میں بن سکے۔اس پر ماہوار غریب ٹرانسپورٹرز کا کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے ۔مگر پاکستان اور پنجاب حکومت کو اس کا بالکل خیال نہیں کہ اگر نیلم جہلم جیسا ہائیڈل پراجیکٹ ہو تو اپنے مفاد کے لیے پیسے لگائیں۔آزاد کشمیر کے عوام کا نقصان ہے تو انہیں کیا غرض۔
۔۔۔ایسے میں ان دنوں چند ”عوامی نماہندے” ہر روز بیان دیتے ہیں ۔کہ خیر سے پاکستان میںآرٹی ایس کی طرح کی سہولتیں ہوئی تو آزاد کشمیر میں ان کی حکومت پکی۔تو ہم آزاد کشمیر میں سیاحت کو وہ فروغ دیں گے کہ سنگاپور اور ملائشیاء دم بخود رہ جائیں گے۔شاہد ان کے ذہین میں ہو گا کہ فواد چوہدری نے بحثیت وفاقی وزیرٹیکنالوجی کوئی ہیلی کاپٹر بنایا ہے۔جو ٥٥ روپے فی کلو میٹر چل کر آزاد کشمیر میں سیاحوں کو جنت کی سیر کرائے گا اس لیے سڑکوں کی تعمیر کی کیا ضرورت۔؟یہ ہے پی ٹی آئی کی روشن خیال نئی قیادت کی سوچ اور لگن۔
۔۔۔پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے سنیئر ترین راہنماء جو تین نشتوں پر الیکشن لڑنے اور وزارت عظمیٰ کے امید وار ہیں،ایک بااثر اور فی الوقت موثر ترین شخصیت ہیں نے جب پنجاب میں کیئر ٹیکر حکومت میں عہدہ سھمبالا تو راقم نے فروری ٢٠١٩ئ میں انہیں ایک کالم لکھ کر مبارک باد دی اور پھر فون کر کے خوشی کا اظہار کیا کہ آپ نوجوان،متحرک اور کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔تو یہ آزاد کشمیر کی نصف آبادی جو ان ٹوٹی پھوٹی اور شکتہ حال سڑکوں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے آپ کی موجودگی میں ہماری یہ دو سڑکیں ،سوہان آزاد پتن اور کہوٹہ ۔ٹائیں ڈھلکوٹ روڈ جو پہلے سے پراجیکٹس کا حصہ ہیں ۔آپ کی تھوڑی کوشش سے یہ بہت بڑا عوامی مسلئہ ہے۔اور ان دو سڑکوں سے نصف آزاد کشمیر مستفید ہوتا ہے۔ مگر گذشتہ پونے تین سالوں سے اس پر قطاً توجہ نہیں دی گئی ۔اور نا ہی یہ ترجیحات میں شامل ہے۔خیر بڑے لوگ مصروف ہوتے ہیں چھوٹی باتوں پر دھیان کہاں۔۔۔اب یہی ممتاز راہنماء جو وزارت عظمیٰ کے سیریس امیدوار ہیں اور آزاد کشمیر میں سیاحت کو فروغ دینا اپنا گول سمجھتے ہیںکو پونے تین سالوں سے خیال نہیں آیا ۔ اگر اب بھی اپنی سیاست اور الیکشن جیتنے کی غرض سے ہی صحیح کچھ پیش رفت کر سکیں تو یہ کوئی ناجائز مطالبہ نہیں۔عوام کا حق ہے ۔اور ووٹرز بھی شدت سے کسی عملی اقدام کا انتظار کریں گے۔اگر اتنا کام بھی نا ہو سکا تو کیا ان لیڈروں کو عوام کندھوں پر بیٹھائیں گے۔کیوں۔؟ نہیں۔بالکل نہیں ہر گز نہیں۔کہ یہ سوچا جارہا ہے کہ عوام کا حافظہ کمزرو ہوتا ے۔لاہینوں میں لگ کر ووٹ دیدیں گے۔ان دیوانوں نے کدھر جانا ہے۔؟
۔۔۔پاکستان میں پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت گذشتہ ڈھائی سالوں میں کسی ایک فیلڈ میں بھی کامیاب نہیں۔جس کی بڑی وجہ حکومتی وزیروں مشیروں میں اہلیت ، صلاحیت اور تجربے کی کمی ہے ۔صرف چند ماہ بعد وزیروں کو بدلنے سے معاملات بہتر نہیں ہو سکتے۔ تو اس حکومت کی موجودگی میں پاکستان کے اپنے انتہائی ابتر،مخدوش،اور ناگفتہ بہ حالات ہیں۔اور آنیوالے وقت میں بھی ذرا بھر بہتری کے کو ئی آثار نا ہونے کے باوجود آزاد کشمیر کے عوام کس بھروسے،امید اور یقین پر ایک ایسی جماعت کو برسرے اقتدار لائیں گے۔کہ جنہوں نے ملک پاکستان کو جنم میں دکیل دیا ہے۔ تو کیا یہی حال آزاد کشمیر میں بھی کرنا ہے۔؟خداراہ آزاد کشمیر پر رحم کریں اور بخش دیں۔۔۔
۔۔۔ہاں البتہ اب وقت آ گیا ہے۔کہ آزاد کشمیر کے عوام جو بلاشبہ کسی بھی لحاظ سے کسی بھی صوبے سے بہتر سیاسی سوچ کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ہمت اور جرائت بھی رکھتے ہیں ۔عوامی نماہندوں کے چنائو میں سوچ سمجھ کر اچھا اور بہتر فیصلہ کریں۔اللہ پاک ہمیں بہتر نماہندے منتخب کرنے اور اچھے فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ثم آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں