583

پی پی پی بھی سلیکٹیڈ ہو گئی

اللہ کی شان ہے۔کہ کل تک مبہم ثبوتوں کے ساتھ پی پی ٹی کی حکومت اور عمران خان کو سلیکٹیڈ کہنے والے دن کی روشنی میں حکومتی چار ووٹ لے کر یوسف رضا گیلانی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئے۔اور کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی باتیں کررہے ہیں۔پورا پاکستان جانتا ہے کہ یہ چار لوگ کس کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں۔وہ لوگ جو ذولفقار علی بھٹو شہید اور بی بی شہید کی قربانیوں کا حوالہ دیتے ہیں ۔وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ انہی کی قربانیوں کے صدقے پی پی پی ملک میں زندہ ہے۔ورنہ اب جو آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی اس میں نا قسمیں وعدے قرآن و حدیث ہوتے ہیں اور نا انتقام کسی شہ کا نام ہے بلکہ ہمہ وقت یہ سوچا جاتا ہے کہ ”بنائی گئی دولت” کو بچانے اور اقتدار میں آنے کے لیے ہر وہ کام جائز ہے ۔جس کی قانونی واخلاقی حثیت بھلے کچھ ہو۔اس سے سروکار نہیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی شہادتوں کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کو گرفتا رکرایا جائے گا مگر جان بوجھ کر پی پی پی کی حکومت نے اسے سرد خانے میں ڈالا ۔اور حتیٰ کہ محترمہ نے جس شخص پرویزالہی کا نام قاتلوں کی فہرست میں رکھا تھا مرد حر آصف علی زرداری نے انہیں اپنی حکومت میں نائب وزیراعظم بنایا۔اور پی پی پی جیالے یہاں بھی خاموش رہے اور احتجاج نا کیا۔تو بتائیں کہ وفاداری کس چیز کا نام ہے۔محترم آصف علی زرداری کا اپنا طریقہ کار ہے۔وہ نا ہاتھ آئی ہوئی مایا کو چھوڑتے ہیں اور نا اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے دن دہاڑے اصولوں سے روگردانی کو برا مانتے ہیں اور پارٹی کی قیادت میں جان نہیں کہ ہاں میں ہاں ملانے کے علاوہ سوال کر سکیں۔
۔۔۔پی ڈی ایم کی گیارہ جماعتوں نے ٢٠ستمبر ٢٠٢٠ئ کو اکٹھے ہو کر ایک چھبیس نکاتی چارٹر بنایا کہ کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور ووٹ کے تقدس کو بحال کرنے کے لیے ایک تحریک چلائی جائے گی۔ایک ہر جماعت اس کی پابند ہو گی۔جبکہ عمران خان اول دن سے کہہ رہے تھے کہ یہ اپنے اپنے ذاتی مفاد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں ان میں قدر مشترک کوئی نہیں۔ اس اتحاد میں بھی تین بڑی پارٹیا ں تھیں۔باقی کی تو ایوان میں نماہندگی بھی نا تھی۔اور حکومت کو خود اور ایجنسیوں کے ذریعے یہ بخوبی علم تھا ۔کہ دو جماعتیں خصوصاً پی پی پی اور مسلم لیگ دونوں آگ اور پانی ہیں۔یہ کبھی بھی اکٹھی نہیں چل سکیں گی۔ اور آصف علی زرداری اپناے مقاصد پورے ہونے پر ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس اتحاد کو دغا دے دیں گے ۔سو پہلے دن سے ہی وہ مفاداتی سوچ لے کر چل رہے تھے۔ اور ہر مقام پر اپنا مفاد حاصل کرتے جارہے تھے۔یہ بات صاف اور واضح تھی کہ نواز شریف کو جب نکالاگیا تو انہوں نے جی ٹی روڈ پرووٹ کو عزت دو کے نام پر لانگ مارچ کیا۔تو کیا پی پی پی کے لیے یہ بات نئی تھی۔؟پی ڈی ایم کے اتحاد بننے کے بعد جب گجرانوالہ کے جلسے میں نواز شریف نے تقریر کی تو بلاول بھٹو نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ میاں صاحب نے نام کیوں لیے۔پھر یکے بعد دیگرے پی ڈی ایم اور خصوصاً ن لیگ کے بیانیے سے پی پی پی نے اعتراض کیا ۔اس لیے کہ پی پی پی ہر دونوں طرف رابطے میں تھی۔زیادہ قربت اس دن بڑھی جب ١٨ اکتوبر کے جلسے کے بعد مریم نواز کے گھر دھاوا بولا گیا ۔پہلے پی پی پی نے شور مچایا اور پھر جب ان سے رابطہ ہوا اور اچھے بچے بن کر رہنے کی تلقین کی گئی تو وہ معاملہ بھی دبا دیا۔وہ دن پی پی پی کی نزدیک رابطے کا پہلا دن تھا۔پھر پی پی پی نے ہر موقع پر اس اتحاد کو استعمال کیا۔اور پھر ووٹوں کی خریدداری کے ماہر جنہوں نے صاوق سنجرانی کو جتوایا تھا۔سے اندرون خانہ پینگیں بڑھائی۔اور پی ڈی ایم کو بھی لارے لپے دیتے رہے۔
۔۔۔۔۔پی پی پی پہلے دن سے ہی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں تھی۔اس کی ایک وجہ اپنے بیرون ممالک اثاثوں کو بچانا۔اور انہی میں سے کچھ خرچ کر کے سینٹرز کو خرید کر یوسف رضا گیلانی کو سینٹ کا ممبر بنوا لینا۔اور باقی اتحادی جماعتوں سے بھی ووٹ لے لینا۔پھر سینٹ چیئرمین کے لیے امیدوار کھڑا کر کے اپنے سات اراکین سے غلط جگہ پر مہر لگوانا۔کہ یہ طے تھا کہ سنجرانی ہی سینٹ چیئر مین ہوں گے اور یوسف رضا گیلانی کو سرکار کے ووٹوں سے اپوزیشن لیڈر بنوا دیا جائے گا۔اب پی پی پی نے پی ڈی ایم کو اس لیے دغا دیا ۔کہ ایک تو آصف علی زرداری کو کیسوں میں چھوٹ ملے گی۔عذیربلوچ بھی آئے روز باعزت بری ہو رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت کی کارکردگی مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت سے بھی بری اور خراب ہے۔وہ صوبے میں شہری نماہندوں کو ساتھ لے کر نہیں چلتے۔جہاں لاکھوں ٹن گندم چوہے کھا جائیں ۔اور کئی سالوں سے کتوں کے کاٹنے کی ویکسین کا انتظام نا کیا جا سکے۔اس حکومت نے تو مل جل ہی گذارہ کرنا ہے۔۔۔پھر اگر الیکشن ہوتے ہیں تو شاہد سندھ میں بھی سابقہ اکثریت نا رہے۔پی پی پی کے لیے بلوچستان،کے پی اور پنجاب اب خواب ہے ۔اور یہ آصف علی زرداری کی بدولت ہوا۔جس پر وہ خوش ہیں۔اور وہ صرف سندھ پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔مگر کب تک؟
۔۔۔اب یوسف رضا گیلانی کو کسی کی ایماء پر حکومتی مد دسے جتوا کر اگلا قدم ”پی پی پی مجموئی نہیں” یہ ہو گا کہ مخصوص مسکراہٹ بکھیر کر پی ڈی ایم سے اپنے باقی مقاصد پورے کرنے کے لیے ڈورے ڈالے جائیں گے۔آصف علی زرداری کا ہدف عمران خان نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔وہ اب یہ مشورہ دیں گے کہ آئو مل کر پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کریں۔اس میں زرداری کا کیا جائے گا۔پرویز الہی تو ویسے بھی دوست ہے۔ٹکر ن لیگ نے لینی ہے۔پرویز الہی اقتدار میں آ گئے تو وہ ایک منجھے ہوئے سیاست دان اور بہتر منتعظم ہیں۔وہ پنجاب پر اپنی گرفت مضبوط کرلیں گے اور نقصان ن لیگ کا ہو گا۔ پھر جنوبی پنجاب سے گیلانی کو مضبوط بنانے کا مقصد وہاں سے ن لیگ کا صفایا کرانا مقصود ہے اور یہ سب کرنے کے باوجود وہ کسی بھی قیمت پر سندھ حکومت نہیں چھوڑیں گے۔۔۔تو کیا یہ بتایا جا سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کو پی پی پی کی کیا ضرورت ہے۔؟جب وہ ہر قدم پر وعدوں سے منحرف ہو رہی ہے۔اور اب حکومتی پارٹنر بھی بن گئی ہے تو پھر انتظار کس کا۔؟
۔۔۔۔اس میں پی ڈی ایم کی جو اتحادی جماعتیں ہیں ان کا بھی برابر کا قصور نہیں بلکہ جرم ہے۔کہ وہ میڈیا میں آ کر یہ کیوں نہیں صاف صاف بتاتے کہ پی ڈی ایم کی اپنی میٹنگ میں کیا فیصلہ ہوا تھا۔اگر کوئی فیصلہ نہیں ہو ا تھا اور گو مگو کی پوزیشن تھی تو پھر پی پی پی جائز اور درست ہے اور اگر پی ڈی ایم کے کسی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پی پی کا چیرمین سینٹ۔جمعیت کا ڈپٹی چیئر مین اور اپوزیشن لیڈر ن لیگ کا ہو گا ۔تو یہ اتحادی لیڈر صاف بات کرنے سے کیوں گھبراتے ہیں۔؟کیا سچ کہنا مشکل ہے۔۔پھر قوم کی کیا نماہندگی کروگے۔؟
۔۔۔۔پی ڈی ایم کو ایک مشورہ ہے ۔کہ اتحاد کی ایک میٹنگ بلائیں ۔اخلاقی جرائت کا مظاہر ہ کریں اور سچ کہیں۔پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو چپ کیوں لگی ہے۔؟کیا ان کے اصول اور ایمان دوسروں کے ساتھ سانجھے ہیں۔اور یہ بات صاف کریں۔کہ اتحاد میں دراڑ کس نے ڈالی ۔جو بھی ہو اس کو اتحاد سے نکال باہر کریں۔یادرکھیں کہ یہ وہ پی پی پی نہیں۔جو شہید ذولفقار علی بھٹو اور شہید بی بی کی پیپلز پارٹی تھی۔یہ اب زرداری پارٹی ہے۔اور یہ بھی اندرون سندھ تک۔۔۔۔اگر عمران خان بہتر پرفارمنس دیتے تو اگلی باری پی پی کو اندرون سندھ سے بھی ڈنٹ پڑتا۔مگر عمران خان بھی امنگوں پر پورا نا اتر سکے۔۔۔
۔۔۔۔پی ڈی ایم کی جماعتوں اور خصوصاً ن لیگ کو چاہئے کہ وہ عمران خان کی حکومت کو نکالنے کا خیال دل سے نکال دے۔ایک پورے صوبے کی پارٹی دوسری طرف مل گئی ہے۔باقی اتحادی جماعتیں بھی سچ کو سچ نہیں کہتی ۔تو بہتر یہ ہے کہ عوام میں مہنگائی اور بے روزگاری اور دوسرے عوامل کے متعلق آگائی پیدا کریں۔اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں۔عمران خان کہیں نہیں جارہے۔ انہیں مکمل حمایت حاصل ہے۔اب پی ڈی ایم میں بھی دراڑ ڈالی جا چکی ہے۔اور پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔اس کی بڑی وجہ اتحادی جماعت کا اپنوں سے ہی دغا اور مفادپرستانہ مزاج تھا۔اور ہے۔جو بھی اپنے بیانیے پر قائم ہو گا وہ سرخ رو ہوگا۔اور جو عوام سے آنکھ مچولی کھیلے گا وہ رسواہو گا۔اللہ پاک عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔آمین۔ثم آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں